EN हिंदी
ہیں اگر دار و رسن صبح منور کے عوض | شیح شیری
hain agar dar-o-rasan subh-e-munawwar ke ewaz

غزل

ہیں اگر دار و رسن صبح منور کے عوض

کرار نوری

;

ہیں اگر دار و رسن صبح منور کے عوض
پھر تو خورشید ہی ابھرے گا مرے سر کے عوض

ہم کو بھی سر کوئی درکار ہے اب سر کے عوض
پتھر اک ہم بھی چلا دیتے ہیں پتھر کے عوض

فرق کیا پڑتا ہے ہو جائے اگر دادرسی
اک نظر دیکھ ہی لو وعدۂ محشر کے عوض

ہم نے چاہا تھا کہ پتھر ہی سے ٹھوکر کھائیں
سر بھی اک ہم کو ملا راہ میں پتھر کے عوض

پاسبانان چمن رہ گئے بیرون چمن
نرگس خفتہ ملی سرو و صنوبر کے عوض

اب کہاں پہلا سا ساقی کے کرم کا دستور
آبرو بیچنی پڑ جاتی ہے ساغر کے عوض

کیا خبر وہ ہی چلے آئیں سجا لوں گھر کو
موج گل آنے لگی آج تو صرصر کے عوض

ان کے وعدہ کی جو تصدیق بھی چاہی نوریؔ
صاف انکار تھا تائید مکرر کے عوض