ہے یہ مر مٹنے کا انعام تمہیں کیا معلوم
لذت دشنئہ بد نام تمہیں کیا معلوم
تم نے دیکھی ہے فقط میری پریشاں حالی
مجھ پہ کیا کیا ہوئے اکرام تمہیں کیا معلوم
حیرتی ہو کے اٹھائے ہوئے دل پھرتے ہیں
اس کے لگ جانے کا انجام تمہیں کیا معلوم
جذبۂ خواہش و احساس کی اس بازی میں
کون ہو جائے گا ناکام تمہیں کیا معلوم
دیکھتے ہو مجھے پر بستہ تو ہنس دیتے ہو
ہے یہاں کون تہ دام تمہیں کیا معلوم
وقت کا رنگ بدلتے نہیں دیکھا تم نے
صورت گردش ایام تمہیں کیا معلوم
موسم مہر کے دو چار برس دیکھے ہیں
سختیٔ موسم آلام تمہیں کیا معلوم

غزل
ہے یہ مر مٹنے کا انعام تمہیں کیا معلوم
عفت عباس