ہے سوز غم کو گرمئ بازار کی تلاش
اس جنس کو ہے اپنے خریدار کی تلاش
کافر کی جستجو ہے نہ دیں دار کی تلاش
ہے ایک جذب غم کے پرستار کی تلاش
آوارگیٔ چشم تجسس عبث نہیں
کرتی ہے اپنے مرکز دیدار کی تلاش
جویا گناہ گار ہے لطف کریم کا
لطف کریم کو ہے گنہ گار کی تلاش
کیا جانے شاخ شاخ نے کیا گل کھلائے ہیں
ہے آشیاں کو برق شرربار کی تلاش
وارفتۂ جنون کا ہے مدعا کچھ اور
صحرا کی جستجو ہے نہ گلزار کی تلاش
پرساں کوئی بھی آج منورؔ مرا نہیں
مجھ غمزدہ کو ہے کسی غم خوار کی تلاش

غزل
ہے سوز غم کو گرمئ بازار کی تلاش
منور لکھنوی