ہے لیکن اجنبی ایسا نہیں ہے
وہ چہرہ جو ابھی دیکھا نہیں ہے
بہر صورت ہے ہر صورت اضافی
نظر آتا ہے جو ویسا نہیں ہے
اسے کہتے ہیں اندوہ معانی
لب نغمہ گل نغمہ نہیں ہے
لہو میں میرے گردش کر رہا ہے
ابھی وہ حرف جو لکھا نہیں ہے
ہجوم تشنگاں ہے اور دریا
سمجھتا ہے کوئی پیاسا نہیں ہے
عجب میرا قبیلہ ہے کہ جس میں
کوئی میرے قبیلے کا نہیں ہے
جہاں تم ہو وہاں سایہ ہے میرا
جہاں میں ہوں وہاں سایہ نہیں ہے
سر دامان صحرا کھل رہا ہے
مگر وہ پھول جو میرا نہیں ہے
مجھے وہ شخص زندہ کر گیا ہے
جسے خود اپنا اندازہ نہیں ہے
محبت میں رساؔ کھویا ہی کیا تھا
جو یہ کہتے کہ کچھ پایا نہیں ہے
غزل
ہے لیکن اجنبی ایسا نہیں ہے
رسا چغتائی