EN हिंदी
ہے کوئی درد مسلسل رواں دواں مجھ میں | شیح شیری
hai koi dard musalsal rawan-dawan mujh mein

غزل

ہے کوئی درد مسلسل رواں دواں مجھ میں

شبانہ یوسف

;

ہے کوئی درد مسلسل رواں دواں مجھ میں
بنا لیا ہے اداسی نے اک مکاں مجھ میں

ملا ہے اذن سخن کی مسافتوں کا پھر
کھلے ہوئے ہیں تخیل کے بادباں مجھ میں

سحابی شام سر چشم پھیلتے جگنو
کسی خیال نے بو دی یہ کہکشاں مجھ میں

مہاجرت یہ شجر در شجر ہواؤں کی
بسائے جاتی ہے خانہ بدوشیاں مجھ میں

عجیب ضد پہ بضد ہے یہ مشت خاک بدن
اگر ہے میری رہے پھر یہ میری جاں مجھ میں

مرا وجود بنا ہے یہ کیسی مٹی سے
سمائے جاتی ہیں کتنی ہی ہستیاں مجھ میں