ہے دل میں جنوں خیز پرستش کا ارادہ
ایسے میں مناسب نہیں رنجش کا ارادہ
جلنے کو ہے تیار متاع دل و جاں پھر
افسوس مگر سرد ہے آتش کا ارادہ
مٹی کا گھروندا بڑی مشکل سے بنا ہے
اے کاش بدل دے کوئی بارش کا ارادہ
یوں کھل کے سر عام نہ مل مجھ سے مرے دوست
دنیا میں ہے زندہ ابھی سازش کا ارادہ
کشکول محبت کی طلب پھر بھڑک اٹھی
دیکھا جو بضد اس میں نوازش کا ارادہ
اس نے بڑا محتاط رویہ رکھا پھر بھی
لہجے سے جھلکتا رہا خواہش کا ارادہ
اس دل کا علاقہ سہی میرے لیے ممنوع
بدلا نہ بہ ہر حال رہائش کا ارادہ
ہے معرکہ آرا جو خیالؔ آج بظاہر
رکھتا ہے پس طیش گزارش کا ارادہ

غزل
ہے دل میں جنوں خیز پرستش کا ارادہ
رفیق خیال