ہے بہت طاق وہ بیداد میں ڈر ہے یہ بھی
جاں سلامت نہ بچا لاؤں خطر ہے یہ بھی
دل کی لو پھر اسی ٹھہراؤ پہ آ جائے گی
اک ذرا دیر ہواؤں کا اثر ہے یہ بھی
جوئے پایاب محبت میں جواہر مت ڈھونڈھ
کسی پتھر کو سمجھ لے کہ گہر ہے یہ بھی
جستجو گوہر معنی کی زیاں وقت کا ہے
کیا پرکھتا ہے انہیں صرف نظر ہے یہ بھی
منزلیں ختم ہوئیں ترک و تعلق کی تمام
اب کسی سمت نکل جا کہ سفر ہے یہ بھی
اب سلامت کہاں رہ پائے گا یہ نقش وفا
کچھ لہو دل کا بچا لے کہ ہنر ہے یہ بھی
دشت و در میں وہی سرخی وہی پیڑوں پہ چمک
زرد پھولوں کو نہ دیکھو تو سحر ہے یہ بھی
آگے چل کے تو کڑے کوس ہیں تنہائی کے
اور کچھ دور تلک لطف سفر ہے یہ بھی
کیا ہے میں جس کے تجسس میں پریشان بھی ہوں
زیبؔ کچھ ہاتھ نہ آئے گا خبر ہے یہ بھی
غزل
ہے بہت طاق وہ بیداد میں ڈر ہے یہ بھی
زیب غوری