ہے عجب دھند جدھر آنکھ اٹھا کر دیکھوں
ریگ ساحل سے نمٹ لوں تو سمندر دیکھوں
میرے ہم سایے میں خالی ہے کرائے کا مکان
آ کے بس جاؤ کہ میں تم کو برابر دیکھوں
جانے کون آ کے پلٹ جاتا ہے دروازے سے
ایک سایہ سا میں دہلیز پر اکثر دیکھوں
ایسا الجھایا گیا مجھ کو فلک سازی میں
اتنی مہلت ہی نہیں تھی کہ زمیں پر دیکھوں
اور گل ہوں گے کھلے دہر میں ذیشانؔ مگر
اپنے گلشن سے بھرے جی تو میں باہر دیکھوں
غزل
ہے عجب دھند جدھر آنکھ اٹھا کر دیکھوں
ذیشان الٰہی