ہے آسیبوں کا سایا میں جہاں ہوں
شب دشت بلا میں بے اماں ہوں
ہوا کی زد پہ جیسے شمع کی لو
میں اپنے حوصلوں کا امتحاں ہوں
چراغاں سا ہے دروازے پہ لیکن
میں اندر سے کوئی تیرہ مکاں ہوں
وہ بادل تھا ہوا کا ہم سفر تھا
میں تشنہ کام فصل رائگاں ہوں
ستوں کچے تھے بارش سہہ نہ پائے
سلگتی دھوپ میں بے سائباں ہوں
پتا میرا اب اس کو کیا ملے گا
نشاں ہوتے ہوئے بھی بے نشاں ہوں
غزل
ہے آسیبوں کا سایا میں جہاں ہوں
پروین شیر