EN हिंदी
ہے آرزو یہ جی میں اس کی گلی میں جاویں | شیح شیری
hai aarzu ye ji mein uski gali mein jawen

غزل

ہے آرزو یہ جی میں اس کی گلی میں جاویں

تاباں عبد الحی

;

ہے آرزو یہ جی میں اس کی گلی میں جاویں
اور خاک اپنے سر پر من مانتی اڑاویں

شور جنوں ہے ہم کو اور فصل گل بھی آئی
اب چاک کر گریباں کیوں کر نہ بن میں جاویں

بے درد لوگ سب ہیں ہمدرد ایک بھی نہیں
یارو ہم اپنے دکھ کو جا کس کے تئیں سناویں

یہ آرزو ہماری مدت سے ہے کہ جا کر
قاتل کی تیغ کے تئیں اپنا لہو چٹاویں

خجلت سے خوں میں ڈوبے یا آگ سے لگے اٹھ
لالہ کے تئیں چمن میں گر داغ دل دکھاویں

بے اختیار سن کر محفل میں شمع رو دے
ہم بات سوز دل کی گر ٹک زباں پہ لاویں

یہاں یار اور بردار کوئی نہیں کسی کا
دنیا کے بیچ تاباںؔ ہم کس سے دل لگاویں