ہے آفت جاں حسن کی شوخی بھی ادا بھی
ہونٹوں پہ تبسم بھی ہے نظروں میں حیا بھی
شامل تری آواز میں تاروں کی نوا بھی
شرمندہ ترے نور سے کرنوں کی ضیا بھی
محفل ہے کہ مطرب کے اشاروں پہ مٹی ہے
سنتا ہے کوئی ساز شکستہ کی صدا بھی
رکھتا ہے بغاوت کے شرارے بھی نظر میں
یہ عشق جو ہے پیکر تسلیم و رضا بھی
رخ پھیر دیا تند ہواؤں کا کسی نے
حالات سے اپنے کوئی مجبور رہا بھی
بچ کر ہی چلے ہم تو زمانے کی روش سے
آزاد روی کا ہمیں احساس ہوا بھی
اکثر لب لعلیں کے تبسم کی کرن نے
امید کے خاکوں میں نیا رنگ بھرا بھی
اے نقشؔ کریں سوز تمنا کا بیاں کیا
سو بار دیا دل کا جلا بھی ہے بجھا بھی
غزل
ہے آفت جاں حسن کی شوخی بھی ادا بھی
مہیش چندر نقش