حدیث سوز و ساز شمع و پروانہ نہیں کہتے
ہم اپنا حال دل کہتے ہیں افسانہ نہیں کہتے
وہی مے نوش راز بادۂ الفت سمجھتے ہیں
جو مستی کو رہین جام و پیمانہ نہیں کہتے
سعادت سوز دل کی بھی بڑی مشکل سے ملتی ہے
سر محفل ہر اک شعلے کو پروانہ نہیں کہتے
ہمارا ٹوٹا ساغر ہی ہمارے کام آئے گا
کسی کے ظرف کو ہم اپنا پیمانہ نہیں کہتے
یہ کیسا انقلاب آیا جہان بے نیازی میں
کہ وہ بھی اپنے دیوانے کو دیوانہ نہیں کہتے
فگارؔ اشعار میں اپنے ہیں رقصاں شوخیاں غم کی
کلی کی داستاں پھولوں کا افسانہ نہیں کہتے
غزل
حدیث سوز و ساز شمع و پروانہ نہیں کہتے
فگار اناوی