ہاتھ اٹھتے ہی کٹا چلیے یہاں سے چلیے
کیا دعا کیسی دعا چلیے یہاں سے چلیے
باز ہے کوئی دریچہ نہ کوئی در ہے کھلا
کوئی جلوہ نہ ادا چلیے یہاں سے چلیں
اس کے گھر پر بھی وہی شہر خموشاں کا سماں
کوئی آہٹ نہ صدا چلیے یہاں سے چلیے
خواب خوشبوئے طلب رنگ ہوس ناز وفا
سارا سرمایہ گیا چلیے یہاں سے چلیے
کوئی سایہ نہ شجر کوئی تمنا نہ امنگ
اڑ گئی سر سے ردا چلیے یہاں سے چلیے
اس چکا چوند میں سکوں کی پرکھ کیا ہوگی
کوئی کھوٹا نہ کھرا چلیے یہاں سے چلیے
دوستوں ہی کے قبیلے میں یہ کہرام نہیں
دشمنوں نے بھی کہا چلیے یہاں سے چلیے
غزل
ہاتھ اٹھتے ہی کٹا چلیے یہاں سے چلیے
مظہر امام