ہاتھ آنکھوں پہ رکھ لینے سے خطرہ نہیں جاتا
دیوار سے بھونچال کو روکا نہیں جاتا
دعووں کی ترازو میں تو عظمت نہیں تلتی
فیتے سے تو کردار کو ناپا نہیں جاتا
فرمان سے پیڑوں پہ کبھی پھل نہیں لگتے
تلوار سے موسم کوئی بدلا نہیں جاتا
چور اپنے گھروں میں تو نہیں نقب لگاتے
اپنی ہی کمائی کو تو لوٹا نہیں جاتا
اوروں کے خیالات کی لیتے ہیں تلاشی
اور اپنے گریبان میں جھانکا نہیں جاتا
فولاد سے فولاد تو کٹ سکتا ہے لیکن
قانون سے قانون کو بدلا نہیں جاتا
ظلمت کو گھٹا کہنے سے بارش نہیں ہوتی
شعلوں کو ہواؤں سے تو ڈھانپا نہیں جاتا
طوفان میں ہو ناؤ تو کچھ صبر بھی آ جائے
ساحل پہ کھڑے ہو کے تو ڈوبا نہیں جاتا
دریا کے کنارے تو پہنچ جاتے ہیں پیاسے
پیاسوں کے گھروں تک کوئی دریا نہیں جاتا
اللہ جسے چاہے اسے ملتی ہے مظفرؔ
عزت کو دکانوں سے خریدا نہیں جاتا
غزل
ہاتھ آنکھوں پہ رکھ لینے سے خطرہ نہیں جاتا
مظفر وارثی