حاصل ضبط فغاں ناکام ہے
اب تو خاموشی پہ بھی الزام ہے
کوئی آواز شکست جام ہے
توبہ توبہ ہر طرف کہرام ہے
یہ بھی فیض گردش ایام ہے
صبح ہے اپنی نہ اپنی شام ہے
دل ہوا ترک و طلب سے بے نیاز
اب یہاں آرام ہی آرام ہے
بحر طوفاں خیز کا ساحل کہاں
عشق کا آغاز بے انجام ہے
رنج کوئی شے نہ کوئی شے خوشی
مختلف احساس کا اک نام ہے
پھر کسی نے آنے کا وعدہ کیا
صبح سے پھر انتظار شام ہے
شاعروں میں یوں تو اپنا بھی فگارؔ
نام ہے لیکن برائے نام ہے
غزل
حاصل ضبط فغاں ناکام ہے
فگار اناوی