حادثوں ہی میں زندگی جی ہے
ہم نے قسطوں میں خودکشی کی ہے
جھک کے جینا ہمیں نہیں آتا
اور آواز بھی کچھ اونچی ہے
آپ سے کچھ گلا نہیں صاحب
اپنی تقدیر ہی کچھ ایسی ہے
شعر پڑھنا یہاں سنبھل کے میاں
اور بستی نہیں یہ دلی ہے
چہرہ اس کا کتاب جیسا ہے
اور رنگت گلاب کی سی ہے
ہم نے رحمتؔ غزل کے لہجے میں
میرؔ صاحب سے گفتگو کی ہے

غزل
حادثوں ہی میں زندگی جی ہے
رحمت امروہوی