گزر جائے جو آنکھوں سے وہ پھر منظر نہیں رہتا
جدا ہو کر جدا ہونے کا کوئی ڈر نہیں رہتا
مٹیں بے چینیاں آخر در و دیوار کی کیسے
گھروں میں لوگ رہتے ہیں دلوں میں گھر نہیں رہتا
دکھائی کس طرح دے شہر میں کوئی مجھے آخر
سوا اس کے نظر میں اب کوئی منظر نہیں رہتا
یہ حیرت ہے کے مجھ کو غم نہیں ہے اس کو کھو کر بھی
پریشاں وہ بھی ہے وہ خوش مجھے پا کر نہیں رہتا
نہیں دیتی اجازت جھوٹ کہنے کی یہ خودداری
اگر سچ بولتے ہیں محفلوں میں سر نہیں رہتا
جسے وہ شوخؔ اپنے ہاتھ سے چھو کر گزر جائے
وہ پتھر پھر زیادہ دیر تک پتھر نہیں رہتا
غزل
گزر جائے جو آنکھوں سے وہ پھر منظر نہیں رہتا
پروندر شوخ