غروب مہر کا ماتم ہے گلستانوں میں
نسیم صبح بھی شامل ہے نوحہ خوانوں میں
جہاں تھے رقص طرب میں کبھی در و دیوار
بلائیں ناچ رہی ہیں اب ان مکانوں میں
اندھیری رات بھیانک کھنڈر مہیب فضا
بھٹک رہا ہوں اجل کے سیاہ خانوں میں
یہ آمد آمد طوفان شب خدا کی پناہ
طیور شام سمٹ جائیں آشیانوں میں
یہ سائیں سائیں کی آواز ہے کہ موت کی ہوک
جو گونجتی ہے شیاطین کے ترانوں میں
ندیم شب کوئی افسانۂ فسون و طلسم
کہ زندگی کی جھلک ہے انہیں فسانوں میں
نہیں ہے شہر وفا کی تباہیوں کا گلا
مگر وہ لوگ جو رہتے تھے ان مکانوں میں
عجیب تھیں یہ غریبوں کی بستیاں لیکن
غریب رہ نہ سکے ان غریب خانوں میں
ہماری گرد سفر بھی نہ اب ملے شاید
رئیسؔ اہل تمنا کے کاروانوں میں
غزل
غروب مہر کا ماتم ہے گلستانوں میں
رئیس امروہوی