EN हिंदी
گمان زخم تمنا تھا اب تلک مجھ کو | شیح شیری
guman-e-zaKHm-e-tamanna tha ab talak mujhko

غزل

گمان زخم تمنا تھا اب تلک مجھ کو

خلیل مامون

;

گمان زخم تمنا تھا اب تلک مجھ کو
نہیں ہے داغ بھی دل میں نہ تھی بھنک مجھ کو

چلا گیا تو کبھی لوٹ کر نہیں آیا
پکارتا رہا آئینۂ فلک مجھ کو

اب اس کو ڈھونڈھتا پھرتا ہوں شہر و دریا میں
چلا گیا وہ دکھا کر بس اک جھلک مجھ کو

نڈھال ہوں میں غم دل سے ہوش کب ہے مجھے
بنائے رکھتی ہے اک ہوک اک کسک مجھ کو

مجھے تو عشق ہے پھولوں میں صرف خوشبو سے
بلا رہی ہے کسی لالہ کی مہک مجھ کو

نقاب اٹھا تو اک شعلہ سا بھڑک اٹھا
جلا گئی ہے ترے چہرے کی جھمک مجھ کو

ترس رہا تھا اجالوں کو کب سے میں مامونؔ
پر اندھا کر گئی سورج کی اک چمک مجھ کو