گلوں پہ سایۂ غم ہائے روزگار ملے
بھری بہار کے چہرے بھی سوگوار ملے
سجا دے ان کے گریباں کو ماہ و انجم سے
ہمارے دست جنوں کو جو اختیار ملے
ہزار داغ اٹھا کر چمن کھلاتی ہے
کہیں زمیں کو جو اہل زمیں کا پیار ملے
ہمارے پاس ہے کیا دولت جنوں کے سوا
نثار چاک گریباں اگر بہار ملے
یہ واقعہ ہے کہ ناصح کی ضد میں بات بڑھی
جو ایک بار نہ ملتے وہ بار بار ملے
مژہ کے اشک تمنا کے زخم یاد کے پھول
کئی چراغ سر شام انتظار ملے
سحر سے دیر و حرم پر جو بحث کرتے ہیں
وہ مے کدے میں سر شام ہمکنار ملے
ہم اپنے چہرۂ فن کا نکھار کیا دیکھیں
کہ آئینے بھی تو آلودۂ غبار ملے
سنیں تو آبلہ پائی کی داستاں لیکن
کہاں شمیمؔ سا آشفتۂ بہار ملے
غزل
گلوں پہ سایۂ غم ہائے روزگار ملے
شمیم کرہانی