گلوں کو صحن چمن میں قرار کیا ہوگا
خزاں کے دور میں شکر بہار کیا ہوگا
یہ شب امید سحر میں گزار دی لیکن
سحر سے تا بہ شب انتظار کیا ہوگا
ہوائے دشت جو دیوانہ وار گزری ہے
نہ جانے آج لب جوئبار کیا ہوگا
جسے الم بھی محبت میں راس آ نہ سکا
کسی خوشی کا اسے اعتبار کیا ہوگا
بجا نصیحت ترک شراب بھی ناصح
علاج آمد ابر بہار کیا ہوگا
شکار کاکل و رخ ہو چکا دل میکشؔ
شکار گردش لیل و نہار کیا ہوگا

غزل
گلوں کو صحن چمن میں قرار کیا ہوگا
مسعود میکش مراد آبادی