گل ترا رنگ چرا لائے ہیں گلزاروں میں
جل رہا ہوں بھری برسات کی بوچھاروں میں
مجھ سے کترا کے نکل جا مگر اے جان حیا
دل کی لو دیکھ رہا ہوں ترے رخساروں میں
حسن بیگانۂ احساس جمال اچھا ہے
غنچے کھلتے ہیں تو بک جاتے ہیں بازاروں میں
ذکر کرتے ہیں ترا مجھ سے بعنوان جفا
چارہ گر پر پرو لائے ہیں تلواروں میں
زخم چھپ سکتے ہیں لیکن مجھے فن کی سوگند
غم کی دولت بھی ہے شامل مرے شہکاروں میں
منتظر ہیں کہ کوئی تیشۂ تخلیق اٹھائے
کتنے اصنام ابھی دفن ہیں کہساروں میں
مجھ کو نفرت سے نہیں پیار سے مصلوب کرو
میں تو شامل ہوں محبت کے گنہ گاروں میں
غزل
گل ترا رنگ چرا لائے ہیں گلزاروں میں
احمد ندیم قاسمی