گل کو خوشبو چاند کو اسلوب تابانی ملے
میرے جذبے سے جہاں کو حسن لافانی ملے
اجلی اجلی سی فضا میں رنگ بکھرے پیار کا
حسن کاروں کو مرا احساس تابانی ملے
دیو قامت پیکروں سے دل مرا گھبرا گیا
اب تو یا رب عام سی اک شکل انسانی ملے
اس ہجوم رنج و غم میں اک ذرا سا زہر بھی
زندگی کو اس طرح سے شاید آسانی ملے
اللہ اللہ زندگی میں انکساری کا یہ روپ
اہل نخوت کو بھی ہم با خندہ پیشانی ملے
وقت کے کتبے پہ شاکرؔ نام ہو کندہ ترا
اہل دنیا کو کوئی تحریر لافانی ملے

غزل
گل کو خوشبو چاند کو اسلوب تابانی ملے
قیوم شاکر