گداز دل سے ملا سوزش جگر سے ملا
جو قہقہوں میں گنوایا تھا چشم تر سے ملا
تعلقات کے اے دل ہزار پہلو ہیں
نہ جانے مجھ سے وہ کس نقطۂ نظر سے ملا
کبھی تھکن کا کبھی فاصلوں کا رونا ہے
سفر کا حوصلہ مجھ کو نہ ہم سفر سے ملا
میں دوسروں کے لیے بے قرار پھرتا ہوں
عجیب درد مجھے میرے چارہ گر سے ملا
ہر انقلاب کی تاریخ یہ بتاتی ہے
وہ منزلوں پہ نہ پایا جو رہ گزر سے ملا
نہ میں نے سوز ہی پایا نہ استقامت ہی
حجر حجر کو ٹٹولا شجر شجر سے ملا
حفیظؔ ہو گیا آخر اجل سے ہم آغوش
تمام شب کا ستایا ہوا سحر سے ملا
غزل
گداز دل سے ملا سوزش جگر سے ملا
حفیظ میرٹھی