غبار اڑتا رہا کارواں رکا ہی نہیں
وہ کھو گیا تو مجھے پھر کبھی ملا ہی نہیں
گواہ ہیں مرے گھر کے یہ بام و در سارے
کہ تیرے بعد یہاں دوسرا رہا ہی نہیں
نہ کوئی در نہ دریچہ نہ روزن و دیوار
کہاں سے آئے ہوا کوئی راستا ہی نہیں
ہزار رنگ بھرے لاکھ خال و خد کھینچے
سراپا تیرا مکمل کبھی ہوا ہی نہیں
تمام رات یہ آنکھیں تلاش کرتی رہیں
مرا ستارہ مگر آسماں پہ تھا ہی نہیں
میں کیا کروں یہ تری سبز وادیاں لے کر
یہاں وہ پھول جسے دل کہیں کھلا ہی نہیں
ضیاؔ میں خود کو یہ سمجھا رہا ہوں برسوں سے
کہ یہ جہان ترے واسطے بنا ہی نہیں
غزل
غبار اڑتا رہا کارواں رکا ہی نہیں
ضیا فاروقی