غبار فکر کو تحریر کرتا رہتا ہوں
میں اپنا درد ہمہ گیر کرتا رہتا ہوں
ردائے لفظ چڑھاتا ہوں تربت دل پر
غزل کو خاک در میرؔ کرتا رہتا ہوں
نبرد آزما ہو کر حیات سے اپنی
ہمیشہ فتح کی تدبیر کرتا رہتا ہوں
نہ جانے کون سا خاکہ کمال فن ٹھہرے
ہر اک خیال کو تصویر کرتا رہتا ہوں
بدلتا رہتا ہوں گرتے ہوئے در و دیوار
مکان خستہ میں تعمیر کرتا رہتا ہوں
لہو رگوں کا مسافت نچوڑ لیتی ہے
میں پھر بھی خود کو سفر گیر کرتا رہتا ہوں
اداس رہتی ہیں مجھ میں صداقتیں میری
میں لب کشائی میں تاخیر کرتا رہتا ہوں
صدائیں دیتی ہیں سالمؔ بلندیاں لیکن
زمیں کو پاؤں کی زنجیر کرتا رہتا ہوں
غزل
غبار فکر کو تحریر کرتا رہتا ہوں
سالم شجاع انصاری