غبار درد میں راہ نجات ایسا ہی
رہا ہے کوئی مرے ساتھ ساتھ ایسا ہی
تو بھول پانے میں دشواریاں بہت ہوں گی
کیا ہے پیار حد ممکنات ایسا ہی
برس گزر گئے اس سے جدا ہوئے لیکن
عجیب بین ہے موج فرات ایسا ہی
اسے بھی اوس میں ڈوبا ہوا لگا تھا بدن
مجھے بھی کچھ ہوا محسوس رات ایسا ہی
میں جس سے خوف زدہ تھا شروع سے آخر
تماشا کر گئی یہ کائنات ایسا ہی
کوئی بھی رنگ میسر نہ آ سکا تو پھر
قبول کر لیا رنگ حیات ایسا ہی
غزل
غبار درد میں راہ نجات ایسا ہی
شہرام سرمدی