گو زبانیں لاکھ ہوں دل کی صدا تو ایک ہے
جتنے ہوں انداز لیکن مدعا تو ایک ہے
کچھ محاذوں پر بہائیں کچھ بہائیں کھیت میں
مختلف جا پر سہی خون وفا تو ایک ہے
ہر طرف سے امتحاں گاہ وفا میں جاؤں گا
قصۂ دار و رسن کا مرحلہ تو ایک ہے
دار ہو مقتل ہو یا ہو طور کا جلوہ کہیں
جذبہ ذوق محبت کا صلہ تو ایک ہے
میں سمجھتا ہوں یہ دنیا ہے حسینوں سے بھری
کیا کروں ذوق نظر کا مدعا تو ایک ہے
آہ نالے درد و غم اختر شماری رات کی
اے مسیح وقت ان سب کی دوا تو ایک ہے
دور ہوں چارہ گران وقت بس اب دور ہوں
عصرؔ کی تکلیف کا درد آشنا تو ایک ہے

غزل
گو زبانیں لاکھ ہوں دل کی صدا تو ایک ہے
محمد نقی رضوی عصر