EN हिंदी
گرتے ہوئے بدن کا نگر چھوڑ جاؤں گا | شیح شیری
girte hue badan ka nagar chhoD jaunga

غزل

گرتے ہوئے بدن کا نگر چھوڑ جاؤں گا

خورشید رضوی

;

گرتے ہوئے بدن کا نگر چھوڑ جاؤں گا
گھبرا کے دستکوں سے یہ گھر چھوڑ جاؤں گا

میں عین زندگی ہوں ٹھہرنا نہیں مجھے
سب منظروں کو مثل نظر چھوڑ جاؤں گا

خود خاک ہو کے گرد سفر میں رہوں گا اور
ان بستیوں میں ذوق سفر چھوڑ جاؤں گا

ہوگا نہ سوگوار مرے واسطے کوئی
جلتا ہوا دیا ہوں سحر چھوڑ جاؤں گا

ہستی مری عدم ہی سہی صورت سحابؔ
میں سیپیوں میں آب گہر چھوڑ جاؤں گا