گراں گزرنے لگا دور انتظار مجھے
ذرا تھپک کے سلا دے خیال یار مجھے
نہ آیا غم بھی محبت میں سازگار مجھے
وہ خود تڑپ گئے دیکھا جو بیقرار مجھے
نگاہ شرمگیں چپکے سے لے اڑی مجھ کو
پکارتا ہی رہا کوئی بار بار مجھے
نگاہ مست یہ معیار بے خودی کیا ہے
زمانے والے سمجھتے ہیں ہوشیار مجھے
بجا ہے ترک تعلق کا مشورہ لیکن
نہ اختیار انہیں ہے نہ اختیار مجھے
بہار اور بقید خزاں ہے ننگ مجھے
اگر ملے تو ملے مستقل بہار مجھے
غزل
گراں گزرنے لگا دور انتظار مجھے
اسد بھوپالی