گھر سلگتا سا ہے اور جلتا ہوا سا شہر ہے
زندگانی کے لیے اب دو جہاں کا قہر ہے
جاؤ لیکن سرخ شعلوں کے سوا پاؤ گے کیا
سنسناتے دشت میں کالی ہوا کا قہر ہے
دل یہ کیا جانے کہ کیا شے ہے حرارت خون کی
جسم کیا سمجھے کہ کیسی زندگی کی لہر ہے
اے محبت میں تری بیتابیوں کو کیا کروں
بڑھ کے چشم یار سے برہم مزاج دہر ہے
بھر رہا ہوں کس شراب درد سے جام غزل
روح میں کچلے ہوئے جذبات کی اک نہر ہے
زندگی سے بھاگ کر پرکاشؔ میں جاؤں کہاں
گھر کے باہر قہر ہے اور گھر کے اندر زہر ہے

غزل
گھر سلگتا سا ہے اور جلتا ہوا سا شہر ہے
پرکاش تیواری