گھر سے نکل بھی آئیں مگر یار بھی تو ہو
جی کو لگے کہیں کوئی کردار بھی تو ہو
یہ کیا کہ برگ زرد سا ٹوٹے بکھر گئے
آندھی چلے ہواؤں کی یلغار بھی تو ہو
سر کو عبث ہے سنگ تواتر کا سامنا
صحن مکاں میں شاخ ثمر بار بھی تو ہو
انمول ہم گہر ہیں مگر تیرے واسطے
بک جائیں کوئی ایسا خریدار بھی تو ہو
کاغذ کی کشتیوں میں سمندر لپیٹ لیں
پہلو میں تیرے قرب کی پتوار بھی تو ہو
سب کو اسی کے لہجہ کی توقیر چاہئے
محسنؔ کسی کو میر سا آزار بھی تو ہو

غزل
گھر سے نکل بھی آئیں مگر یار بھی تو ہو
محسن جلگانوی