گھر میں رہتے ہوئے غیروں کی طرح ہوتی ہیں
لڑکیاں دھان کے پودوں کی طرح ہوتی ہیں
اڑ کے اک روز بہت دور چلی جاتی ہیں
گھر کی شاخوں پہ یہ چڑیوں کی طرح ہوتی ہیں
سہمی سہمی ہوئی رہتی ہیں مکان دل میں
آرزوئیں بھی غریبوں کی طرح ہوتی ہیں
ٹوٹ کر یہ بھی بکھر جاتی ہیں اک لمحے میں
کچھ امیدیں بھی گھروندوں کی طرح ہوتی ہیں
آپ کو دیکھ کے جس وقت پلٹتی ہے نظر
میری آنکھیں مری آنکھوں کی طرح ہوتی ہیں
غزل
گھر میں رہتے ہوئے غیروں کی طرح ہوتی ہیں
منور رانا