گھر کو یوں توڑو کہ پھر حسرت تعمیر نہ ہو
کوئی تقدیر نہ ہو اور کوئی تدبیر نہ ہو
ایسے مر جائیں کوئی نقش نہ چھوڑیں اپنا
یاد دل میں نہ ہو اخبار میں تصویر نہ ہو
بیٹھے بیٹھے یونہی اندھیارے میں زائل ہو جائیں
کوئی دم ساز نہ ہو کوئی خبر گیر نہ ہو
نیند میں تتلیاں آنکھوں میں لہکتی جائیں
خواب دیکھیں مگر اس خواب کی تعبیر نہ ہو
کون سنتا ہے مرے شعر یہاں اب مامونؔ
عین ممکن ہے مری بات میں تاثیر نہ ہو
غزل
گھر کو یوں توڑو کہ پھر حسرت تعمیر نہ ہو
خلیل مامون