گھڑی گھڑی اسے روکو گھڑی گھڑی سمجھاؤ
مگر یہ دل ہے کہ کچھ دیکھتا ہے آؤ نہ تاؤ
اب اس کے درد کو دل میں لیے تڑپتے ہو
کہا تھا کس نے کہ اس خوش نظر سے آنکھ ملاؤ
عجب طرح کے جھمیلے ہیں عشق میں صاحب
برت سکو تو ہو معلوم آٹے دال کا بھاؤ
چلو وہ اگلا سا جوش و خروش تو نہ رہا
مگر یہ کیا کہ ملو اور ہاتھ بھی نہ ملاؤ
نظر ہے شرط حقیقت کو دیکھنے کے لیے
کہ ہر بگاڑ میں ہوتے ہیں سو طرح کے بناؤ
ہمارے حال کا کیا ہے سدھر ہی جائے گا
مگر یہ بات کہ تم اپنی الجھی لٹ سلجھاؤ
ہماری عمر بھی گزری ہے اس خرابے میں
کہاں کے ہوتے ہیں یہ لوگ اہل عشق ہٹاؤ
کبھی کھلو بھی یہ کیا ہے کہ آفتاب حسینؔ
پڑے رہو یوں ہی گھر پر کسی کے آؤ نہ جاؤ
غزل
گھڑی گھڑی اسے روکو گھڑی گھڑی سمجھاؤ (ردیف .. ٔ)
آفتاب حسین