گیا وہ خواب حقیقت کو روبرو کر کے
بہت اداس ہوں میں ان سے گفتگو کر کے
ابھی نہ چھوڑ قبائے امید کا دامن
ابھی تو زخم چھپا چاک دل رفو کر کے
کرو نہ دفن کہ مقتل کا نام اونچا ہو
لٹا دو خاک پہ لاشے کو قبلہ رو کر کے
انہیں میں ماہ صفت بھی ہیں مہر آسا بھی
ملے ہیں داغ کئی ان کی آرزو کر کے
اٹھو نعیمؔ کہ باغ عدم سے ہو آئیں
وہیں گئے ہیں تپشؔ دل کو یوں لہو کر کے
غزل
گیا وہ خواب حقیقت کو روبرو کر کے
حسن نعیم