EN हिंदी
گیا وہ خواب حقیقت کو روبرو کر کے | شیح شیری
gaya wo KHwab-e-haqiqat ko ru-ba-ru kar ke

غزل

گیا وہ خواب حقیقت کو روبرو کر کے

حسن نعیم

;

گیا وہ خواب حقیقت کو روبرو کر کے
بہت اداس ہوں میں ان سے گفتگو کر کے

ابھی نہ چھوڑ قبائے امید کا دامن
ابھی تو زخم چھپا چاک دل رفو کر کے

کرو نہ دفن کہ مقتل کا نام اونچا ہو
لٹا دو خاک پہ لاشے کو قبلہ رو کر کے

انہیں میں ماہ صفت بھی ہیں مہر آسا بھی
ملے ہیں داغ کئی ان کی آرزو کر کے

اٹھو نعیمؔ کہ باغ عدم سے ہو آئیں
وہیں گئے ہیں تپشؔ دل کو یوں لہو کر کے