گواہی کیسے ٹوٹتی معاملہ خدا کا تھا
مرا اور اس کا رابطہ تو ہاتھ اور دعا کا تھا
گلاب قیمت شگفت شام تک چکا سکے
ادا وہ دھوپ کو ہوا جو قرض بھی صبا کا تھا
بکھر گیا ہے پھول تو ہمیں سے پوچھ گچھ ہوئی
حساب باغباں سے ہے کیا دھرا ہوا کا تھا
لہو چشیدہ ہاتھ اس نے چوم کر دکھا دیا
جزا وہاں ملی جہاں کہ مرحلہ سزا کا تھا
جو بارشوں سے قبل اپنا رزق گھر میں بھر چکا
وہ شہر مور سے نہ تھا پہ دوربیں بلا کا تھا
غزل
گواہی کیسے ٹوٹتی معاملہ خدا کا تھا
پروین شاکر