EN हिंदी
غور سے مجھ کو دیکھتا ہے کیا | شیح شیری
ghaur se mujhko dekhta hai kya

غزل

غور سے مجھ کو دیکھتا ہے کیا

نادم ندیم

;

غور سے مجھ کو دیکھتا ہے کیا
میرے چہرے پہ کچھ لکھا ہے کیا

میری آنکھوں میں جھانکتا ہے کیا
تجھ کو ان میں ہی ڈوبنا ہے کیا

میرے ہونٹوں کو چھو لیا اس نے
کیا بتاؤں مجھے ہوا ہے کیا

اے کبوتر ذرا بتا مجھ کو
ان کی چھت پر بھی بیٹھتا ہے کیا

پر کٹے پنچھیوں سے پوچھتے ہو
تم میں اڑنے کا حوصلہ ہے کیا

فاصلے عشق میں ہی ہوتے ہیں
تجھ کو یہ بھی نہیں پتا ہے کیا

میری دنیا میں بس تو ہی تو ہے
اب بتا تیرا فیصلہ ہے کیا

پیار سے مانگ لی ہے جان اس نے
میرے حصے میں اب بچا ہے کیا

چل کہیں دور چلتے ہیں نادمؔ
گھر کو جانے میں بھی رکھا ہے کیا