EN हिंदी
غش بھی آیا مری پرسش کو قضا بھی آئی | شیح شیری
ghash bhi aaya meri pursish ko qaza bhi aai

غزل

غش بھی آیا مری پرسش کو قضا بھی آئی

ثاقب لکھنوی

;

غش بھی آیا مری پرسش کو قضا بھی آئی
بے مروت تجھے کچھ شرم و حیا بھی آئی

موسم حسن تو تھا فصل جفا بھی آئی
ساتھ ہی ساتھ جوانی کی ادا بھی آئی

دم کا آنکھوں میں اٹکنا بھی مبارک نہ ہوا
وقت کی بات تم آئے تو قضا بھی آئی

میں شب وصل یہ سمجھا کہ سحر بھی کچھ ہے
وہ جو آئے تو موذن کی صدا بھی آئی

ان مریضوں کی عیادت کو وہ اب نکلے ہیں
موت جا کر جنہیں مٹی میں ملا بھی آئی

کر دیا سوز دروں نے مجھے شمع سر بزم
بن گئی دم پہ اگر پاس ہوا بھی آئی

کان یوں ان کے بھرے ہیں مری فریادوں نے
نالے سمجھے جو کوئی اور صدا بھی آئی

پھر بھی ثاقبؔ نہ اڑی طالع خفتہ کی نیند
آہ جا کر مری گردوں کو ہلا بھی آئی