گرمی پہلوئے دلدار نے سونے نہ دیا
مجھ کو رنگینی افکار نے سونے نہ دیا
یوں ہی تکتا رہا تاروں کو سحر ہونے تک
رات بھر دیدۂ بیدار نے سونے نہ دیا
رات بھر لذت قربت سے رہا محو کلام
رات بھر مجھ کو مرے یار نے سونے نہ دیا
رات بھر جاگا کئے پلکیں نہ جھپکیں ہم نے
رات بھر عشق کے آزار نے سونے نہ دیا
رات بھر دل کے دھڑکنے کی صدا آتی رہی
رات بھر سایۂ دیوار نے سونے نہ دیا
رات بھر یاد گزشتہ نے ستایا مجھ کو
رات بھر چشم گہر بار نے سونے نہ دیا
رات بھر کھل نہ سکا مجھ پہ کسی طور ندیمؔ
رات بھر حسن پر اسرار نے سونے نہ دیا
غزل
گرمی پہلوئے دلدار نے سونے نہ دیا
شہباز ندیم ضیائی