گرم زمیں پر آ بیٹھے ہیں خشک لب محروم لیے
پانی کی اک بوند نہ پائی بادل بادل گھوم لیے
سج رہے ہوں گے نازک پودے چل رہی ہوگی نرم ہوا
تنہا گھر میں بیٹھے بیٹھے سوچ لیا اور جھوم لیے
آنگن کی مانوس فضا میں خوابوں نے زنجیر بنی
بعد میں جھک کر اپنے سائے دیواروں نے چوم لیے
میں نے کتنے رستے بدلے لیکن ہر رستے میں فروغؔ
ایک اندھیرا ساتھ رہا ہے روشنیوں کے ہجوم لیے
غزل
گرم زمیں پر آ بیٹھے ہیں خشک لب محروم لیے
رئیس فروغ