گردش میں زہر بھی ہے مسلسل لہو کے ساتھ
مرتا بھی جا رہا ہوں میں اپنی نمو کے ساتھ
جن موسموں میں تیری رفاقت تھی ناگزیر
تو نے رتیں بنائی ہیں وہ بھی عدو کے ساتھ
مجھ کو عطا ہوا ہے یہ کیسا لباس زیست
بڑھتے ہیں جس کے چاک برابر رفو کے ساتھ
مجھ کو وہی ملا مجھے جس کی طلب نہ تھی
مشروط کچھ نہیں ہے یہاں آرزو کے ساتھ
اب جام جم سے لوگ یہاں مطمئن نہیں
جاذبؔ گزر رہی ہے شکستہ سبو کے ساتھ

غزل
گردش میں زہر بھی ہے مسلسل لہو کے ساتھ
شکیل جاذب