گردش جام بھی ہے رقص بھی ہے ساز بھی ہے
جس میں نغموں کا تلاطم ہے وہ آواز بھی ہے
اتنا سادہ بھی اسے اے دل پر شوق نہ جان
التفات ایک نگاہ غلط انداز بھی ہے
مدعا ان کا سمجھ میں نہیں آتا اے دل
بے سبب ہے یہ تغافل کہ کوئی راز بھی ہے
غرق کیفیت آہنگ طرب سن تو سہی
زندگی درد میں ڈوبی ہوئی آواز بھی ہے
توڑ ڈالیں گے قفس آج اسیران قفس
عزم پرواز بھی ہے قوت پرواز بھی ہے
میری آنکھوں سے ڈھلکتے ہوئے ہر اشک میں آج
عکس انجام بھی ہے صورت آغاز بھی ہے
کون جانے یہ مرے دل کے سوا اے مضطرؔ
اس کی اک جنبش لب سلسلۂ راز بھی ہے
غزل
گردش جام بھی ہے رقص بھی ہے ساز بھی ہے
رام کرشن مضطر