گردش ارض و سماوات نے جینے نہ دیا
کٹ گیا دن تو ہمیں رات نے جینے نہ دیا
کچھ محبت کو نہ تھا چین سے رکھنا منظور
اور کچھ ان کی عنایات نے جینے نہ دیا
حادثہ ہے کہ ترے سر پہ نہ الزام آیا
واقعہ ہے کہ تری ذات نے جینے نہ دیا
کیفؔ کے بھولنے والے کو خبر ہو کہ اسے
صدمہ ترک ملاقات نے جینے نہ دیا
غزل
گردش ارض و سماوات نے جینے نہ دیا
کیف بھوپالی