گرد میں اٹ رہے ہیں احساسات
دھیمے دھیمے برس رہی ہے رات
جل اٹھا اک چراغ شام تو کیا
بجھ گئے بے شمار امکانات
ہائے ماضی کی دل نشیں یادیں
ہائے خونخوار بھیڑیوں کی برات
چیونٹیاں جیسے ذہن پر رینگیں
اف یہ میرے لطیف احساسات
بھوت بن کر مجھے ڈراتی رہیں
میری نا آفریدہ تخلیقات
کون آیا مرے تعاقب میں
وہی فکر و خیال کے جنات
دفعتاً کس نے قہقہہ مارا
یہ اندھیرے میں کون ہے مرے سات
صرصر شب کہاں کہ پتوں میں
کرب غم سے کراہتی ہے حیات
مجھ سے مجھ کو نہ چھین کر لے جائے
شاہزادیٔ کشور ظلمات
صبح جاگا تو یاد بھی نہ رہا
رات تھی چاندنی کہ چاندنی رات
تودہ ریگ و نخل خشک چنار
چھپ گئی کس کی اوٹ میں برسات
یہ درخت کہن لسان الغیب
اور یہ شاخ خشک برگ نبات
کیا یہی ہے رئیسؔ امروہوی
اڑ کے آئے ہیں دور سے ذرات
غزل
گرد میں اٹ رہے ہیں احساسات
رئیس امروہوی