گرد باد شرار ہیں ہم لوگ
کس کے جی کا غبار ہیں ہم لوگ
آ کہ حاصل ہو ناز عز و شرف
آ تری رہ گزار ہیں ہم لوگ
بے کجاوہ ہے ناقۂ دنیا
اور زخمی سوار ہیں ہم لوگ
جبر کے باب میں فروزاں ہیں
حاصل اختیار ہیں ہم لوگ
پھر بدن میں تھکن کی گرد لیے
پھر لب جوئے بار ہیں ہم لوگ
باد صرصر کبھی تو باد سموم
موجۂ خاکسار ہیں ہم لوگ
چشم نرگس مگر علیل بھی ہے
کس لیے بے کنار ہیں ہم لوگ
غزل
گرد باد شرار ہیں ہم لوگ
امیر حمزہ ثاقب