گرچہ بادل پانی برساتا ہوا گھر گھر پھرا
پھر بھی بارش کی دعا کرتا رہا اک سر پھرا
ایک امی کو ملی اپنے ہی دل میں کائنات
اور میں عالم تلاش ذات میں در در پھرا
ہم زمانے سے پھرے یہ تو بجا ہے صاحبو
اس کو تو لاؤ جو ہم سے آشنا ہو کر پھرا
اس کی خوش فہمی نے کل بس مار ہی ڈالا ہمیں
تجھ کو دیکھا اور دروازے سے چارہ گر پھرا
آب وہ آئی جو چہرے پر عدو کے بعد وصل
اور پانی وہ جو میری آرزوؤں پر پھرا

غزل
گرچہ بادل پانی برساتا ہوا گھر گھر پھرا
شجاع خاور