غرض رہبر سے کیا مجھ کو گلہ ہے جذب کامل سے
کہ جتنا بڑھ رہا ہوں ہٹ رہا ہوں دور منزل سے
سکوت بے محل تقریر بے موقع کی تہمت کیوں
اٹھانا ہو تو یوں ہم کو اٹھا دو اپنی محفل سے
یہ ارمان ترقی آج ہے دعویٰ خدائی کا
اسی دل کا جو کل تک تھا لہو کی بوند مشکل سے
گل و لالہ پہ آخر کر رہا ہے غور کیا گلچیں
یہ وہ خوں ہے جو ٹپکا تھا کبھی چشم عنادل سے
شب مہتاب دریا کا کنارہ اور یہ سناٹا
تمہیں اس ساز پر ہم خوش کریں گے نغمۂ دل سے
غضب ہے جل کے پروانوں کا ان کی بزم میں کہنا
رواںؔ یا یوں فدا ہو جاؤ یا اٹھ جاؤ محفل سے
غزل
غرض رہبر سے کیا مجھ کو گلہ ہے جذب کامل سے
جگت موہن لال رواںؔ