گر یہی وضع ہے اور ہیں یہی ہیہات نصیب
تو ہمیں ہو چکی بس اس سے ملاقات نصیب
ہم لب گور ہوئے خوں بہ جگر اس غم سے
کرنی اس غنچہ دہن سے نہ ہوئی بات نصیب
صبح ہر روز اسی غم میں ہمیں ہوتی ہے شام
آہ جاگیں گے مرے کون سی اب رات نصیب
کچھ ہمیں شکوہ نہیں جور سے تیرے ہرگز
ہم ہمیشہ سے ہیں اے جان کچھ آفات نصیب
مسجدوں میں پھرے نت سبحہ پھراتے حیراںؔ
شیخ جی پر نہ ہوئی تم کو کرامات نصیب

غزل
گر یہی وضع ہے اور ہیں یہی ہیہات نصیب
مرزا حیدر علی حیران