گنوا کے دل سا گہر درد سر خرید لیا
بہت گراں تھا یہ سودا مگر خرید لیا
امین عشق نے دل بے خطر خرید لیا
یہ آئنہ مع آئینہ گر خرید لیا
غضب تھا عشق کا سودا کہ اہل ہوش نے بھی
جو کچھ نصیب تھا سب بیچ کر خرید لیا
بھلا ہو غم کی تنک ظرفیٔ طبیعت کا
اگرچہ بات گنوا دی اثر خرید لیا
رہ رضا میں ہے خونی کفن سے شان شہید
تو جان بیچ کے رخت سفر خرید لیا
جو دل کہے نہ کہوں وہ جو تو کہے وہ کہوں
تو کیا ضمیر بھی اے حیلہ گر خرید لیا
تلاش عیش میں اے آرزوؔ ہے رنج ہی رنج
ستم نصیب یہ کیا درد سر خرید لیا
غزل
گنوا کے دل سا گہر درد سر خرید لیا
آرزو لکھنوی